Innovative Ideas Hub

“Welcome to Innovative ideas Lab, a collaborative platform where experts and enthusiasts from diverse educational and scientific domains share their insights, research, and knowledge. Our mission is to foster a community of learners, innovators, and thought leaders who can exchange ideas, explore new perspectives, and advance understanding in their fields.

On this page, you’ll find articles, blog posts, and opinion pieces on a wide range of topics, from cutting-edge scientific discoveries to innovative educational approaches. Our contributors are passionate about sharing their expertise and experiences, and we invite you to join the conversation.

Whether you’re a student, researcher, educator, or simply curious about the world around you, we hope you’ll find inspiration, valuable information, and a sense of community here. Explore, engage, and share your own thoughts – let’s learn and grow together!”


KHRMS WIN OXIMETER CONTEST TOP ARTICLES

Samra Batool

Samra Batool

(SIMS)

Abeer Fatima

Abeer Fatima

(RMU)

Sultan Mehmood

Sultan Mehmood

(QAMC)

ARTICLE WRITINGS

زوال بے سبب آتا نہیں ۔ 

76 سال ہوئے ہماری آزادی کو ، بڑوں نے بڑی قربانیاں دے کر اپنی آنے والی نسلوں کے لیے آزاد ملک حاصل کیا۔ قائد نے انتھک محنت سے ملک تو آزاد کروایا لیکن صرف الگ جگہ ملنے سے ملک زوال و عروج کے مراحل طے نہیں کرتا ، الگ سوچ اور الگ نظریات رکھنے والے ہمیشہ ترقی کی منزلیں طے کرتے ہیں ۔  افسوس ہے ہم آزاد ملک میں رہتے ہوئے آزاد نظریات کے متحمل نہ ہو سکے ۔ لا الہ الااللہ کے نام کے بنائے گئے ملک میں مسلمان ضرور تھے لیکن ان کی سوچ میں مغرب کی غلامی پنپتی رہی جو زوال کا سبب بنی ۔ جب ایک آزاد مملکت کے حکمران اپنی سوچ کے گھوڑے مغرب کی غلامی میں دوڑاتے ہوں تب آتا ہے زوال ، جب ایک آزاد مملکت کے حکمران اپنے جلسے تو اپنے قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کرتے ہوں لیکن اپنے پیٹوں اور بینک بیلنس کو مغرب کی دی گئی رشوت سے بھرتے ہوں تب آتا ہے زوال ، جب آیک آزاد مملکت ایٹمی طاقت کے لحاظ سے دنیا کے نقشے پر ابھرنے کے باوجود بھی شام ، فلسطین میں موجود مسلمان بہن ، بھائیوں کے خلاف ظلم کو اپنی ایٹمی طاقتوں اور ایمان کے زور سے نہ روک سکیں اور جہاں جنگی ہتھیار اور طیارے صرف اور صرف نمائش اور پریڈ کے لیئے استمعال  میں لائے جاتے ہوں تب آتا ہے زوال ، جب ایک آزاد مملکت میں حکمران اور رعایا لا الہ الاللہ ،اللّٰہ اور رسول کے نام پر کٹ مرنے کو تیار ہوں اور مجال ہے جو اللہ اور رسول کے بنائے گئے احکامات کی پیروی کریں تب آتا ہے زوال ، جب ایک آزاد مملکت میں انصاف اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے والوں کا سر بڑی بے دردی سے کچل دیا جاتا ہو تب آتا ہے زوال ۔۔۔۔جب ایک مملکت آزاد ہو کہ بھی غلام ہو تب آتا ہے زوال ۔۔۔!

 از قلم ؛ قرأت زاہد

زوال بے سبب آتا نہیں.
دنیا میں کوئی بھی کام بغیر کسی وجہ کے واقع نہیں ہوتا.ہر کام کے وقوع پذیر ہونے میں کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے.اسی طرح زوال بھی بغیر کسی وجہ کے نہیں آتا. قرآن مجید میں ﷲ تعالیٰ نے زوال کا سبب ترکِ قرآن بتایا ہے.جب مسلمان ایک اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے بھی قرآن اور حضرت محمد صل ﷲ علیہ والہ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل نہیں کرتا جبکہ اس کو قرآن کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی پوری آزادی حاصل ہے اور مگر وہ اغیار کا طریقہ اپناتے ہوئے اسلام پر عمل پیرا نہیں ہوتا تو پھر زوال آتا ہے.تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے دامنِ مصطفیٰ صل ﷲ علیہ والہ و سلم تھامے رکھا وہ ثریا کی بلندی سے بھی اوپر تک گئے. لیکن جب انہوں نے قرآن مجید کے احکامات کو چھوڑ کر اپنے فائدے کے قوانین نکال کر رائج کر لیے تو وہ زوال کا شکار ہو گئے. المختصر یہ ہے کہ ترکِ قرآن زوال کا سبب ہے.
_وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر_
🖊️از قلم
بنتِ احمد

مشہور مقولہ ہے۔ لفظ زوال کے اصطلاحی معنی غروب ہونا کے ہیں۔ انسانی زندگی جو کہ خوشیوں اور دکھوں کا مجموعہ ہے اس کی بقا عروج و زوال پر مبنی ہے۔ یہ مقولہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انسانی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات بغیر کسی وجہ سے رونما نہیں ہوتے پھر چاہے وہ کوئی خوش ہو یا غم اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر ہم ماضی میں نظر دوڑائیں تو بہت سے ایسے واقعات ملیں گے جن میں قومیں کسی نہ کسی وجہ سے زوال کا شکار ہوئیں قرآن مجید ایسی بہت سی مثالیں ہیں جو یہ وجہ بیان کرتی ہیں کہ انسان پر زوال اس کے اپنے اعمال کی وجہ سے آتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے کہ بے شک عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر ہم بحیثیت قوم اپنے حال پر غور کریں تو ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آج کیوں مسلمان ہر جگہ زوال کا شکار ہیں۔ مسلمانوں پر زوال کا سبب فقط دین سے دوری اور آ پس میں نا اتفاقی ہے ہم نے اسلام کو مختلف فرقوں میں بانٹ دیا ہےاور بس کچھ رسم و رواج تک محدود کر دیا ہے شاید یہ ہی ہمارے زوال کا سب سے بڑا سبب ہے۔ جبکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو. تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب تک مسلمان قوم قرآن وسنت پر عمل پیرا رہی تو آسمانوں کی بلندیوں کو چھوتے تھے مگر جونہی اس سے پیچھے ہٹے تو آسمان سے زمین پر آگئے۔ حضرت علامہ محمد اقبال اپنے شعر میں اس بات کی عکاسی کرتے ہیں؛
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
از قلم۔ اسماء مختار

فرسٹ یٸر ایم بی بی ایس کا بچہ جسکو میڈیکل فِیلڈ میں آۓ گِنتی کے چند دن ہی ہوۓ جسکو ڈگری ملنے میں ابھی پانچ سال باقی۔وہ مجھ سے پوچھ رہا ہے کون کون سے اور کیسے طریقے ہیں جنکو اختیار کر کے چھ سال بعد وہ یہ ملک چھوڑ کر کسی اور ملک جا کے انسانیت کی خدمت کرۓ گا۔ایم بی بی ایس پہلے سال کا بچہ ہو یا پانچویں سال کا وہ ڈگری ملنے سے کٸ سال پہلے ہی یہ فیصلہ کر کے بیٹھا ہوتا ہے کہ باہر کہیں بھی جاوں گا لیکن اس ملک میں نہیں رہوں گا! کیوں؟ ایم بی بی ایس کی ڈِگری پر کروڑوں لگا کے باہر کیوں جانا؟کیا یہاں مریض نہیں ہیں؟ یہاں کے بیمار کو ڈاکٹر کی ضرورت نہیں؟ نہیں ایسا تو نہیں ہے۔۔۔پھر یہ سوچ کیوں؟شروع سے ہی باہر جاتے وہاں پڑھتے مسیحا بن کر خدمت کرتے۔جس ملک میں پڑھے ڈِگری لی انکی خدمت کا کیوں نہیں سوچتے؟ اس کیوں کا جواب یہاں ہر عام انسان کے پاس بھی ہے۔جس مرضی شخص کے پاس بیٹھ جاو وہ کچھ ہی وقت میں آپ کے سامنے ہر سسٹم کھول کے رکھ دے گا۔وہ آپ کے سامنے واضح کر دے گا یہاں ہر سسٹم تباہ ہے۔اس میں کوٸ شک نہیں ہم تباہ بھی ہیں زوال کا شکار بھی ہیں یہ تو بچہ بچہ جانتا ہے۔کیا کبھی غور کیا اس کے پیچھے پسِ منظر کیا شاید اس کا حل نِکل جاۓ اور اس طرح کی سوچ سے ہمارا نوجوان بچ جاۓ۔وجہ معلوم ہوگی تب ہی تو اس کو ختم کیا جاۓ گا؟ اب سوال یہ اٹھتا وجہ کی تلاش کون کرۓ گا ظاہر ہے ہم۔بجاۓ سسٹم کی خرابی کا رونا رونے کے اس زوال کے سبب کو جان کر اسکو ختم کریں تو کوٸ بھی طالبعلم باہر کی سوچ کے ساتھ کسی تعلیمی ادارے میں داخل نہیں ہوگا وہ اپنی سرزمین کو چھوڑنے کا مشکل فیصلہ نہیں لے گا۔تو آٸیں ایک نظر ان وجوہات پر ڈالتے ہیں۔
آج ہم زوال پذیر ہیں کیونکہ ہم اس جڑ سے علیحدہ ہوگۓ جو ہماری بقا تھی۔بغیر سبب کے تو ہم فقیر کو خیرات بھی نہیں دیتے تو زوال کیسے کسی وجہ کے بغیر آگیا تاریخ گواہ ہے جب تک مسلمان نظامِ مُصطفیٰﷺ سے وابستہ رہے تعلیماتِ اسلام پر عمل کرتے رہے کامیاب رہے۔جب سے درِ مُصطفُیﷺ سے تعلق توڑا ایٹمی طاقت ہوتے ہوۓ بھی ذلیل و رسوا ہیں کیونکہ عزت صرف اسلام میں ہے۔جب سے قرآن سے رہنماٸ حاصل کرنا چھوڑ دی تباہ ہو کر رہے گۓ۔حضورﷺ کی غلامی ترک کر کے انگریز کے غلام جا بنے،غیرت،ایمان بہادری جیسے عناصر کو اپنی زندگیوں سے نکال دیا۔اسلام کی حدود توڑیں۔ترجیحات بدلیں۔اسلامی ثقافت اسلامی طرزِ زندگی اسلامی نظام اسلامی تہذیب سے لا تعلقی کو اختیار کیا تو زوال نے ہماری طرف رخ موڑ لیا۔
ہمارے آباواجداد تو بڑی شان والے تھے انہوں نے کامیابی کی وہ منزلیں طے کیں،ایسی تاریخ رقم کی کہ آج بھی کفر انکے نام سے کانپ اٹھتا ہے۔ہماری نسبت بھی تو ان سے ہے پھر ہم ذلیل کیوں؟ کیونکہ وہ ایمان نہیں وہ جذبہ نہیں وہ فکر نہیں وہ تدبر نہیں وہ ضمیر نہیں وہ غیرت نہیں وہ علم نہیں وہ عمل نہیں مختصر یہ کہ ان جیسی کوٸ بات نہیں جو مسلمان کو زوال سے بچاۓ۔علم کی کمی اور جہالت کا عام ہونا قوم پر زوال لے آتا۔

تھے تو آبا وہ تمھارے مگر تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

ازقلم ڈاکٹر ثناء ایوب